پھر تو یہ رسم، محبت کی نبھائی ہوتی
آنکھ سے آنکھ اگر ہم نے ملائی ہوتی
کوئی ترکیب جو مِلنے کی بنائی ہوتی
دردِ فرقت کے جھمیلے سے رہائی ہوتی
ہم بھی پِی لیتے بصد شوق شرابِ الفت
ایک، دو گھونٹ سَہی تُم نے پِلائی ہوتی
پہلوئے یار میں ہم وصل کی چَکھتے لذت
محفلِ عشق کہیں جاکے جَمائی ہوتی
آشیاں قلب کا بَچ جاتا نگاہِ بد سے
تھوڑی جُرأت جو اگر ہم نے دِکھائی ہوتی
جان کو جان اگر اپنی سمجھ لیتے ہم
آج پھر جان یہ اپنی نہ پرائی ہوتی
یا تو پھر خِرمنِ عارف کو ہی کردیتے راکھ
"کوئی بجلی ہی فلک تُونے گرائی ہوتی”
غیاث الدین احمد عارف مصباحی
مدرسہ عربیہ سعید العلوم یکما ڈپو لکشمی پور، مہراج گنج (یوپی)