آنکھوں میں دیدِ شوق بڑھا کر چلے گئے
جاتے ہوئے وہ اپنا بنا کر چلے گئے
کچھ اس طرح سے تیر چلا کر چلے گئے
نقشِ بتاں وہ دل سے مٹا کر چلے گئے
پتھر مزاج شخص کا دل موم ہو گیا
وہ سینے میں یوں آگ جلا کر چلے گئے
آنکھوں سے بھاپ اٹھ رہی ہے یا کہ ہے نمی
سامانِ ہستی دل کا جلا کر چلے گئے
میں اس طرح سے کھویا رہا ان کی یاد میں
میں سوچتا رہا کہ وہ آ کر چلے گئے
وحشت نے درِ عشق پے کیں سجدہ ریزیاں
کعبہ خیالِ غیر کا ڈھا کر چلے گئے
اے دنیا خوش رہے نہ رہے سادہ دل مگر
ہم آئے تھے کہ تجھ سے نبھا کر چلے گئے
زندانِ دنیا میں ہے بشر قید کس لئے
اچھے وہی ہیں لوگ جو آ کر چلے گئے
آیا ہے جو بھی دنیا میں خوش لوٹتا نہیں
کتنے ہی لوگ قصے سنا کر چلے گئے
پوچھا نہ حالِ دل کسی نے بھی حسن رضا
جتنے تھے رشتے آنسو بہا کر چلے گئے
محمد حسن رضا حسانی