آپ بڑے ہو کر کیا بنیں گے؟

آپ بڑے ہو کر کیا بنیں گے؟

میں ایک پرائمری اسکول ٹیچر ہوں ۔ ہمارے گورنمنٹ پرائمری اسکول مواچھ گوٹھ میں آج اُردو کا پرچہ تھا ۔ میری ڈیوٹی پانچویں جماعت یعنی جماعت پنجم کے طلبہ پر تھی ۔ جماعت پنجم کو برآمدے میں جگہ ملی تھی ۔ میں احتیاطی تدبیر کے طور پر برآمدے کے ایک ایسے کونے میں کھڑا تھا کہ جہاں چھت سے مزید کسی سیمنٹ کے ٹکڑے کے گِرنے کا کوئی چانس نہیں تھا۔ تیس عدد بچوں کے لیے دس دس کی تین سیدھی قطاروں میں ٹوٹی پھوٹی کرسیوں کا انتظام کیا گیا تھا ۔ بچوں کی مجھے اور انتظامیہ دونوں کو ہی کوئی خاص پرواہ نہیں تھی ۔ بوسیدہ چھت سے گرنے والے سیمنٹ کے ٹکڑوں سے بچوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا کیونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ ہر بچے کی حفاظت پر اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ مامور ہوتا ہے جو اُس کی حفاظت کرتا رہتا ہے ۔ ہاں اگر کسی کی اللہ کی طرف سے ہی لکھی ہو تو اُسے کون ٹال سکتا ہے۔
خلاف معمول آج کے پیپر میں ایک بچہ کم تھا ۔ دیوار کے ساتھ جُڑی پہلی قطار کی پہلی کُرسی خالی پڑی تھی ۔ یہ اویس کی کُرسی تھی ۔ کالے پیلے بچوں میں واحد بچہ کہ جسے دیکھ کر کوئٹہ کی مشہور زمانہ سُرخ و سفید خُوبانی یاد آ جائے ۔
آج اویس غیر حاضر نہیں تھا بلکہ اُس نے چُھٹی لے لی تھی ۔ اسکول سے نہیں !! دُنیا سے !! دائمی چُھٹی !!
وہ ایک دِن پہلے ہی اپنی گلی میں کھیلتے ہوئے گٹر کے کُھلے دھانے میں گِر کر مر گیا تھا ۔ بدقسمت تھا ورنہ اُس کی کمیونٹی کے بچوں میں بڑے ہو کر مخالف سیاسی پارٹی کے ہاتھوں شہید ہونے کی روایت تھی۔
بچے پُورے انہماک سے پیپر حل کرنے میں مصروف تھے ۔ پیپر کا دورانیہ ایک گھنٹہ تھا اور اب آخری دس منٹ چل رہے تھے ۔ مجھے برآمدے کے محفوظ کونے میں کھڑے پُورے پچاس منٹ ہونے والے تھے ۔ آخرکار بوریت سے تنگ آ کر میں نے رسک لینے کا ارادہ کر لیا ۔ چھت پر لٹکتی سیمنٹ کی کھپریلوں کے نیچے ٹہلتے ہوئے میں نے بچوں کے جوابات کا جائزہ لینا شروع کیا ۔ تقریباً سبھی بچے آخری سوال کو نمٹا رہے تھے ۔
سوال تھا !! آپ بڑے ہو کر کیا بنیں گے ؟؟
پانچویں جماعت کے بچوں سے مجھے کسی تخلیقی مضمون کی تو قطعاً کوئی اُمید نہیں تھی لیکن وقت گزاری کو میں نے اُن کے جوابی پرچوں میں جھانکنا شروع کر دیا ۔
تیسری قطار کی چاروں کرسیوں پر ڈاکٹر صاحبان براجمان تھے۔ پھر ایک پائلٹ اور یوں یہ سلسلہ پہلی قطار کے وسط تک ڈاکٹر ، پائلٹ اور انجنئیر کے درمیان ہی گھومتا رہا !!
پہلی قطار کی پہلی خالی کرسی کے پیچھے اویس کا دوست عبداللہ بیٹھا تھا ! عبداللہ اور اویس کلاس کے دوران بھی اکھٹے ہی بیٹھتے تھے ۔ عبداللہ کے جوابی پرچے پر جواب دیکھتے ہی ایسا لگا جیسے چھت سے لٹکتی سیمنٹ کی کھپریلیں یک دم چمکادڑ بن کے میرے سر کے اوہر سے میزائلوں کی صورت زبنگ زبنگ گزرنے لگی ہوں ۔
عبداللہ کا پرچہ کُرسی کے دستے پر پڑا تھا اور اُس کی سُوجھی ہوئی آنکھیں اُس کی گود میں جمی ہوئی تھیں ۔
عبداللہ کا جواب بھی مختصر سا ہی تھا !!
”بڑا ہونا بہت مُشکل ہے !! لیکن اگر ہو گیا تو کاریگر بنوں گا !! گٹر کے ڈھکن بنانے والا کاریگر !! بہت سارے ڈھکن بناؤں گا !! بہت سارے !!“

عابی مکھنوی

 

يه بهي پڑهيں:

عشق کہانی

میں اور شہر

پہلی آواز

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

جواب دیں