اخبار پڑھ کے میرا کلیجہ دہل گیا
ننھی کلی کو آج بھی کوئی مسل گیا
والد تمام زخم بھلا کر مچل گیا
پا کر کھلونا بیٹے کا من جو بہل گیا
ایسا لگا مجھے کہ مرا دم نکل گیا
"شاید جگر حرارتِ عشقی سے جل گیا”
میرے قدم بڑھے تھے گناہوں کی راہ پر
ماں کی دعائیں ساتھ تھیں فورا سنبھل گیا
لائے گا انقلاب تو اے نوجوان گر
اس کے فریب جھوٹ سے بچ کر نکل گیا
آزاد پھر رہا ہے چلا کر وہ گولیاں
مجھ بے قصور پر ترا ہر وار چل گیا
مال و متاع کچھ بھی نہیں تھا اسی لیے
منصف کا فیصلہ مرے حق میں بدل گیا
برباد پھر نہ ہوگی کبھی زندگی تری
گر وقت رہتے آج بھی تھوڑا سنبھل گیا
غربت میں جی رہا ہوں مگر یہ نہیں ہوا
مال حرام دیکھا کبھی میں پھسل گیا
واللہ جب نظر پڑی اُمت کے حال پر
رنج و الم سے شمسی کا دل بھی دہل گیا
شمس الحق علیمی مہراج گنج یوپی