اگست آکے بڑھاے شباب آزادی

اگست آکے بڑھاے شباب آزادی
پلاے اہلِ وطن کو شراب آزادی

بِگُل بجاؤ ابھی چڑھ کے آج منبر سے
خزاں رسیدہ ہے پھر سے نصاب آزادی

پسینہ ہم نے بہایا نہیں وطن کے لیے
لکھی ہے خون سے اپنے کتاب آزادی

ہوں فضلِ حق کہ عنایت، ہوں یا، علی جوہر
بغیر ان کے وہم تھا یہ خواب آزادی

ہمیں ہیں اصل محب سن اے ملک کے دشمن
"کبھی تو کھول کے پڑھ لے کتاب آزادی”

نواب و ٹیپو، ظفر، احمد اللہ شاہ
ہیں بے شمار چھپے آفتاب آزادی

معاذ لاکھ بدل لیں وہ ہسٹری پھر بھی
ہمیشہ ہم سے شروع ہوگا باب آزادی

(اگست آکے بڑھاے شباب آزادی)
(پلاے اہلِ وطن کو شراب آزادی)

معاذ احمد رضوی مصباحی "معاذ مبارک پوری”


چھلکتی نہروں کا رنگیں شباب آزادی

لہوسے لکھی گئی ہے کتابِ آزادی

خوشی میں ڈوبے ہیں خود سے ملا کے آزادی

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has One Comment

جواب دیں