باپ کی شفقت میں ہے رعبِ تپیدہ کا اثر

باپ کی شفقت میں ہے رعبِ تپیدہ کا اثر

 

منتشر وقتوں میں لاتا ہے وہ نظم و اتصال
زندگی پر پھر نہیں چڑھتا ہے رنگِ اختلال

باپ کی شفقت میں ہے رعبِ تپیدہ کا اثر
سرخ پیشانی میں جیسے ہو محبت کا جمال

مشورہ اس کا ہے سنگِ میل بچوں کے لیے
اس کی سختی سے نہیں ہوتا کوئی بھی پائمال

جب بھی دیتی ہے یہ دنیا زخم قلبِ ناز کو
باپ ہی لاتا ہے اپنی کوششوں سے اندمال

زندگی کی تلخ یادوں میں کوئی گھرتا ہے جب
پیش کرتا ہے پدر جامِ نوا، آبِ زُلال

جہدِ پیہم باپ کا ہے رشک کے قابل سنو
کامیابی کے لیے لازم ہے محنت کا جلال

مطلعِ صبح و مسا کو صاف کرتا ہے پدر
تب نظر آتا ہے بچوں کو مسرت کا ہلال

اس کی پیشانی پہ پڑتی ہیں تھکن کی سلوٹیں
پھر بھی کرتا ہے وہ گھر کو راحتوں سے مالا مال

اس کو مولیٰ نے جو احسن درد کا خوگر کیا
اس لیے رکھتا نہیں وہ اپنی راحت کا خیال

توفیق احسن برکاتی


 

بچوں کی ضرورت کو کام جانتا ہے وہ

خواب میں والدِ ماجد کا جو چہرہ دیکھا

مری نگاہ میں شہپر ہے اک پدر کا وجود

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

جواب دیں