بچوں کی ضرورت کو کام جانتا ہے وہ

زندگی کے صحرا کی خاک چھانتا ہے وہ
بچوں کی ضرورت کو کام جانتا ہے وہ

تلخ گھونٹ پیتا ہے مشکلوں کے ساحل پر
اپنے دل کی دھڑکن میں ڈر سنبھالتا ہے وہ

ریت کی چٹانوں پر اس کو نیند آتی ہے
صبر کے دریچے سے روز جھانکتا ہے وہ

خونِ دل جلا کر کے اک مکاں بناتا ہے
بے بسی کی آنکھوں میں نیند پالتا ہے وہ

دھوپ کی تمازت سے وہ ہمیں بچاتا ہے
آفتاب کے رخ پر موم ڈھالتا ہے وہ

تھک کے شام کو اپنے گھر پہ جب پہنچتا ہے
رات کے چراغوں میں خون ڈالتا ہے وہ

بھوک اژدہا بن کر جب اسے ڈراتی ہے
صبر کا عصا لے کر مار ڈالتا ہے وہ

اس کے حوصلے احسن کوہِ قاف جیسے ہیں
ڈوب کر پسینے میں دل اچھالتا ہے وہ

(زندگی کے صحرا کی خاک چھانتا ہے وہ)
(بچوں کی ضرورت کو کام جانتا ہے وہ)

توفیق احسن برکاتی


خواب میں والدِ ماجد کا جو چہرہ دیکھا

مری نگاہ میں شہپر ہے اک پدر کا وجود

کتنا بدل گیا ہے ہندوستاں ہمارا

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has 2 Comments

جواب دیں