برستے بادل بجھے نظاروں کو مہر و مہتاب کر رہے ہیں
طفیل شاہ امم زمینوں کو سبز و شاداب کر رہے ہیں
یہ میرا وجدان کہہ رہا ہے کہ دشت امکاں کی وسعتوں میں
نقوش پائے نبی کے اطراف رقص گرداب کر رہے ہیں
ہو ناتوانی کی حکمرانی کہ جھریوں کی ہو جاودانی
نبی کے دیدار کے مہیا تمام اسباب کر رہے ہیں
سنا ہے دن رات زہر اگلتے ہیں دشمنان رسول اکرم
جواب دینے کو ہم بھی اپنی زباں کو تیزاب کر رہے ہیں
کہاں سے لاؤں میں اتنے پیسے کہ در پہ آقا کے جا سکوں میں
کہاں سے پوری کروں وہ ضد میں جو ضد مرے خواب کر رہے ہیں
کہیں تمہیں دیر ہو نہ جائے اٹھو بھی غفلت کے بستروں سے
سنو ، اشارہ حریم رحمت کے بام و محراب کر رہے ہیں
بھٹکتا میں در بدر پھروں کیوں جہاں رکا ہوں وہاں رکوں کیوں
مدینے والے کی سمت ہجرت مرے سبھی خواب کر رہے ہیں
ہمارے عہد سخن کے کتنے ہی شاعران رسول رحمت
نبی کی مدحت نگاریوں کے رقم نئے باب کر رہے ہیں
مکین طیبہ کے سبز گنبد پہ اپنی نظریں جمائے پیہم
فلک دریچوں سے حور و غلماں سلام و آداب کر رہے ہیں
رسول آخر حبیب داور نگاہ کا لمس دے کے یاور
جو دشمنی کا لباس پہنے ہیں ان کو احباب کر رہے ہیں
(برستے بادل بجھے نظاروں کو مہر و مہتاب کر رہے ہیں)
(طفیل شاہ امم زمینوں کو سبز و شاداب کر رہے ہیں)
یاور وارثی