مجھ سے جو تُو ہر گام پہ یوں بول رہا ہے

مجھ سے جو تُو ہر گام پہ یوں بول رہا ہے
در اصل تِرا جہلِ دروں بول رہا ہے

میں ہوں تِری ہر بات کی تفصیل کا طالب
اور تُو ہے کہ ہر بات پہ "ہوں” بول رہا ہے

ایزد کی مشیت کے حوالے سے جہاں میں
چوں اور چرا ہر کوئی کیوں بول رہا ہے؟

اِک فرد ہے محبوسِ فسوں سازیِ وحشت
اِک شخص خرد کو بھی جنوں بول رہا ہے

قاتل کو مکافاتِ عمل مل کے رہے گی
مقتول کا ہر قطرۂ خوں بول رہا ہے

وہ اپنے گریبان میں بھی جھانک کے دیکھے
جو آج مجھے خوار و زبوں بول رہا ہے

میں مصلحتاً آج ذرا چپ جو ہوں ثاقب
اِک شخص یہاں حد سے فزوں بول رہا ہے

(مجھ سے جو تُو ہر گام پہ یوں بول رہا ہے)
(در اصل تِرا جہلِ دروں بول رہا ہے)

ثاقب قمری مصباحی


 

وحشتِ ہجر ہے، اندیشۂ تنہائی ہے

صورتِ شعر مرے دھیان میں آجاتا ہے

یہ دھوپ، چاند، ستارے، ہوا، گھٹا، بارش

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

جواب دیں