چاہا تھا قربت کا موسم

چاہا تھا قربت کا موسم
پایا ہے فرقت کا موسم

تم سے بچھڑے تو ہم سمجھے
ہوتا ہے حیرت کا موسم

دل سے ہم جھگڑے ہیں برسوں
جھیلا ہے حجت کا موسم

خاموشی سی خاموشی ہے
گم صم ہے ہجرت کا موسم

جی بھر کے یادوں سے لڑتے
ملتا تو فرصت کا موسم

تیری خواہش کب ہم بھولے
کب بھولے حسرت کا موسم

ہر موسم کا زینؔ ہے ساتھی
یہ اس کی قلت کا موسم
سید انوار زینؔ


کتنا تھا البیلا موسم

مجھ کو لوٹا دے جوانی کا سہانا موسم

آ گیا آمدِ سرکار کا پیارا موسم

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

جواب دیں