نعت
چلو طیبہ نگر میں اپنا بھی اک آشیاں کر لیں
ارم کے باغ سے دل کی سنو نزدیکیاں کر لیں
اچانک چھائیں بادل دھوپ میں بھی آسمانوں پر
اگر جو بند اپنی شاہِ بطحا مٹّھیاں کر لیں
یقیں ہے شمس شرمائے قمر تو غش ہی کھا جائے
اگر سوئے فلک سرکار اپنی ایڑیاں کر لیں
نہ بجھ پائے چراغِ دیں محافظ ہے ہوا اس کی
بجھانے کے جتن لاکھوں جہاں کی آندھیاں کرلیں
بھلا کیا ہو ضرورت حشر میں ساۓ کی بھی ہم کو
انہی کے دستِ رحمت کو ہم اپنا شامیاں کر لیں
سمیٹیں آقا کا صدقہ تہی دامن بھریں اپنا
فلک پر جیسے تارے ہیں ہم اپنی جھولیاں کر لیں
نبی کے نقش پا پر جان و دل اپنے فدا کرکے
ہم اپنے نام جنْت کی حسیں تر وادیاں کر لیں
کہاں اتنی بساط اپنی کہیں نعتِ حبیبِ ربّ
ملے حسّان کا صدقہ سخن آرائیاں کرلیں
چلو آقا کے روضے کی سنہری جالیاں تھامیں
مثالِ شمس اپنی ہم کرن یہ انگلیاں کر لیں
کرن زہرہ