چشمِ باخبر :ازفریدی صدیقی مصباحی
======
اِدھر ہے آنکھ کشتی پر، اُدھر گِرداب پر بھی ہے
بھروسہ رب پہ ہے، لیکن نظر اسباب پر بھی ہے
ملے ہیں اِس قدَر دھوکے ، کہ چشمِ باخبر اپنی
عدو کی چال پر تو ہے ، مگر احباب پر بھی ہے
لبِ اظہار و شوقِ دید پر طاری ہے بیتابی
توجہ بارگاہِ عشق کے آداب پر بھی ہے
طلب مقبول اُس بندے کی ہوتی ہے ، قدم جس کا
عمل کی راہ پر ہے اور دعا کے باب پر بھی ہے
فقط خوں کی روانی کو ، نہ کوئ زندگی سمجھے
مَدارِ باغِ جاں ، عزم و یقیں کے آب پر بھی ہے
اُسی کی رہبری ہے انقلاب آور، کہ جس کی آنکھ
فصیلِ دیں پہ ہے اور فتنوں کے سیلاب پر بھی ہے
یہی اِس دَور کا سب سے بڑا غم ہے، کہ ظلمت کا
ستاروں پر تو ہے، لیکن اثر مہتاب پر بھی ہے
فریدی ! اہلِ حق کے مال و جاں ہی بس نہیں زد میں
حکومت کی نظر اب منبر و محراب پر بھی ہے