چھلک رہاہے نگاہوں سےآب آزادی
چمک رہا ہے فلک پر شہاب آزادی
بلند اس لئے سر ہے مرا زمانے میں
دیا ہے نیزے پہ چڑھ کرخطاب آزادی
ہے داستان شہادت سے ہر سطر روشن
” کبھی تو کھول کے پڑھ لے کتاب آزادی”
جب اپنےخون سےسینچاوطن کےگلشن کو
چمن میں تب کھلا جا کر گلاب آزادی
لگا دیا ہے اکابر نے جان کی بازی
کھلاہےتب کہیں جاکرکے باب آزادی
ہمارے خون سے روشن ہیں ہندکے ذرے
ہمارا خاک تو لے گا حساب آزادی
رہ غلامی کی جانب قدم نہ بہکیں گے
پیا ہے ہم نے اۓ مظہر! شراب آزادی
(چھلک رہاہے نگاہوں سےآب آزادی)
(چمک رہا ہے فلک پر شہاب آزادی)
مظہر علی نظامی علیمی
سنت کبیر نگر یوپی
This Post Has One Comment
Pingback: کیوں ہم سے مانگ رہے ہو حسابِ آزادی - Global Urdu