چھلکتی نہروں کا رنگیں شباب آزادی
بہارِ سنبل و لالہ، گلاب آزادی
وطن کی آگ بجھاتے جھلس گئے ہم تو
جو ہم نہ ہوتے تو رہتی سراب آزادی
وہ دے رہے تھے غلامی کے جانے کتنے گہر
کہا تڑپ کے مرا انتخاب آزادی!
ہمیں نے لکھی ہے یہ داستانِ حُرّیّت
ہمیں سے کہتے ہیں بدلو نصابِ آزادی
ورق ورق ہے بہت قیمتی جناب اس کا
لکھی ہےخونِ جگر سے کتابِ آزادی
ہمارے فتوؤں سے نیند ان کی اڑ گئی ناگاہ
سجائے ہم جو بڑھے دل میں خوابِ آزادی
قدم ہٹانے کا وہم و گماں نہیں ذاکرؔ
سنبھالا ہم نے ہے جس دم رکابِ آزادی
(چھلکتی نہروں کا رنگیں شباب آزادی)
(بہارِ سنبل و لالہ، گلاب آزادی)
نتیجہ فکر: محمد ذاکر حسین ذاکؔر، فیض آباد
This Post Has One Comment
Pingback: اگست آکے بڑھاے شباب آزادی - Global Urdu