نعتِ حبیب ﷺ
[شاہ نصیر دہلوی کی زمین میں]
چُن رہا ہوں شوقِ طَیبہ میں برَس کی تیلیاں
ہاتھ آ جائیں، دعا ہے، دسترَس کی تیلیاں
دستِ رحمت نے جو بخشا عافیت کا سائبان
بےضرورت ہو گئیں چشمِ عسَس کی تیلیاں
رحمتِ بےدام بھی اک رنگ ہے لیکن وہ رنگ
چہرۂ اِجلال پر طاری عبَس کی تیلیاں
سر سے جو فیضانِ بخشش کا ہٹے سایہ، پناہ!
منہدم ہو جائیں بُرجِ بےاسَس کی تیلیاں
بارِ کلفت سے تاسُّف خیز تھا نفسِ جنوں!
خوبیِ غُفراں نے کاٹِیں پھر قفَس کی تیلیاں
رحمة لّلعالمینی ابر سے اُتری حیات
بجھ رہی تھیں پے بہ پے تارِ نفَس کی تیلیاں
نورِ ایمانِ رسالت نے یقیں پیدا کیا
حملہ زَن تھیں سر پہ ورنہ پیش و پَس کی تیلیاں
اک نگاہِ معرفت، اے خواندۂ پروردگار
علم زاروں سے ہویدا ہیں جرَس کی تیلیاں
مختصر ہے حرفتِ یک آرزو کی داستاں
تا بہ شہرِ نور پہنچَیں خار و خَس کی تیلیاں
دائؔم