خلاف ان کے کبھی بھی میں جا نہیں سکتا
دغا کی ان پہ میں تہمت لگا نہیں سکتا
مرے حبیب تجھے میں نے دل سے چاہا ہے
بھلا دے تو ہی تجھے میں بھلا نہیں سکتا
تو کر لے کتنی ہی سازش تو کر لے لاکھ جتن
ہماری ہستی کبھی تو مٹا نہیں سکتا
جو کر لے راستہ تبدیل قبلِ منزل ہی
میں ہم سفر اسے اپنا بنا نہیں سکتا
لٹا ہے جس کی قیادت میں کارواں اکثر
اسے دوبارہ میں رہبر بنا نہیں سکتا
نظر پہ پہرا ہے آجاؤ تم خیالوں میں
میں گھر پہ کرنے ملاقات آ نہیں سکتا
کسی نے تیر چلایا ہے ترچھی نظروں سے
بچا کے دل میں جگر کو بچا نہیں سکتا
جو گر گیا ہو نگاہوں سے اپنی اے تصدیق
نظر کسی سے وہ اپنی ملا نہیں سکتا
(خلاف ان کے کبھی بھی میں جا نہیں سکتا)
(دغا کی ان پہ میں تہمت لگا نہیں سکتا)
تصدیق احمد خان "تصدیق” اجمیر (انڈیا)
This Post Has One Comment
Pingback: پیار سے میں لپٹ نہیں سکتا - Global Urdu