درِ نبی کی طلب ہی تصورات میں ہے

درِ نبی کی طلب ہی تصورات میں ہے
یہی کمی تو فقط اب مری حیات میں ہے

ہزاروں صبحیں یہاں کی نہیں ہیں اس جیسی
سرور جو کہ درِ مصطفیٰ کی رات میں ہے

مرے خدا نے رسل کو نوازا ہے جن سے
ہر ایک خوبی مرے مصطفیٰ کی ذات میں ہے

جہاں ہو نقشِ قدم سر وہیں جھکا لینا
رقم یہ عشقِ پیمبر کی سب لغات میں ہے

یہی پیام ہمیں دیتا ہے "وما ينطق”
حضور آپکا کہنا خدا کی بات میں ہے

صدائیں صلّ علی کی ہمیشہ آئیں گی
غلام ایک بھی گر ان کا کائنات میں ہے

نبی کی نعت ہی لکھتا رہا سدا عابد
لکھا ہوا یہی پروانۂ نجات میں ہے

عابد علی عابد حافظ آبادی

 

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

جواب دیں