ایسے ، کیسے؟ بکھر گیا ہوگا؟
دل کا دل تک اثر گیا ہوگا ؟
ان کے کوچے میں دھول اڑتی ہے؟
کوئی آشفتہ سر گیا ہوگا
آج چہرہ تھکا تھکا ، صاحب؟
کوئی دل سے اتر گیا ہوگا
ہم سے کہتے ہو داستاں دل کی
زخم کہنہ ، ابھر گیا ہوگا؟
جانے والے کو یوں بھی جانا تھا
ہم پہ الزام دھر گیا ہوگا
یار چہرہ جو اترا اترا ہے
تو بھی الفت نگر گیا ہوگا؟
کوئے جاناں فریب خانہ ہے
تجھ کو روکا ، مگر گیا ہوگا
ساری دھرتی جو پانی پانی ہے
تنکا تنکا بکھر گیا ہوگا
کیوں غزل گوئی سے پھرے ہو عدیم؟
نفسِ امّارہ مر گیا ہوگا ؟
(ایسے ، کیسے؟ بکھر گیا ہوگا؟)
(دل کا دل تک اثر گیا ہوگا ؟)
از ۔ عباس عدیم قریشی