دل سے اس کو لگا نہیں سکتا

دل سے اس کو لگا نہیں سکتا

 

جو غمِ دل چھپا نہیں سکتا
ڈھنگ سے مسکرا نہیں سکتا

تیرے جانے کا غم بہت ہے مگر
دل سے اس کو لگا نہیں سکتا

تجھ سے وابستگی رہی ہے مری
میں تجھے آزما نہیں سکتا

پہلی چاہت ہو آخری جس کی
زندگی بھر بھلا نہیں سکتا

لے کے خوفِ خدا جو پھرتا ہے
وہ کبھی ڈگمگا نہیں سکتا

آج پھر بے قرار دل ہے مرا
آج میں ملنے آ نہیں سکتا

ٹوٹ جائے جو آئینہ دل کا
کوئی اس کو بنا نہیں سکتا

زینَ ہر خواب تو ان آنکھوں کا
دیکھ تعبیر پا نہیں سکتا

سید انوار زین


ملال دل سے مرے یہ نکل نہیں سکتا

پیار سے میں لپٹ نہیں سکتا

دغا کی ان پہ میں تہمت لگا نہیں سکتا

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has One Comment

جواب دیں