عید آخر عید ہے،یہ عید آخر عید ہے

ہر طرف دیکھو ذرا یہ منظر خوش دید ہے
عید آخر عید ہے،یہ عید آخر عید ہے

ہر زباں پہ دیکھو جاری نعرۂ توحید ہے
عید آخر عید ہے، یہ عید آخر عید ہے

ہے فضا میں آج گونجی ذکرِ ھُو کی یہ صدا
تسبیح و تمجید ہے، یہ عید آخر عید ہے

غم ہو یا پھر ہو خوشی چھوڑو نہ رب کی بندگی
ہاں یہی تاکید ہے، یہ عید آخر عید ہے

تم خوشی میں بھی غریبوں کو نہ ہرگز بھولنا
رب کی پھر تائید ہے،یہ عید آخر عید ہے

ہے کہیں تہلیل تو تقدیس اور تکبیر بھی
حمد کی تمہید ہے، یہ عید آخر عید ہے

مصطفیٰ کی نعت کے نغمے درودوں کی صدا
اور کہیں ناشید ہے، یہ عید آخر عید ہے

خوب تم خوشیاں کرو ہو سادگی پیشِ نظر
سلف کی تقلید ہے، یہ عید آخر عید ہے

ہر کسی کو آج جھکنا ہوگا مولٰی کے حضور
دارا و جمشید ہے، یہ عید آخر عید ہے

جمعہ کے دن خوب ہوگا خلد کا بازار وہ
دید رب کی دید ہے، یہ عید آخر عید ہے

یہ اَنَا کیسی تکبُّر اور یہ کیسا گھمنڈ
اس کی تو تردید ہے،یہ عید آخر عید ہے

ہے یہ ایفائے عہد اور رسمِ قربانی ہے یہ
دین کی تجدید ہے، یہ عید آخر عید ہے

پنجتن سے جُڑ گئی نسبت تیری سُن اے غریب
کیوں بھلا نومید ہے،یہ عید آخر عید ہے

یا خدا میرے وطن کو تو بنادے پُر اماں
تجھ سے ہی اُمید ہے، یہ عید آخر عید ہے

عید دل آزاری کا بن جائے نہ سیّد سبب
رب کےہی افرید ہے،یہ عید آخر عید ہے

ازقلم: سیّد محمد قادری عفی عنہ


 

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

جواب دیں