اک اجنبی کو دیکھ کے ناداں مچل گیا
ٹھکرا کے خونی رشتے وہ کیسے نکل گیا
جھک جھک کے احترام سے ملتا تھا جو کبھی
اس شہر بے وفا میں وہ نظریں بدل گیا
معلوم تھا مجھے کہ وہ ہے اجنبی مگر
شیریں زباں سے اس کی حزیں دل بہل گیا
اڑنے لگا فضا میں لگا کر خیالی پر
بہکا تھا پر وہ دیکھیے جلدی سنبھل گیا
جلنے کی بو لگی تو یقیں ہو چلا مجھے
” شاید جگر حرارت عشقی سے جل گیا "
اس دل کو چلمنوں میں چھپاتے رہے سدا
دل موم کا دیا تھا یہ آخر پگھل گیا
اخبار بکتے ہیں نہ کتابیں دکان میں
دہشت وبا کی ہے جو زمانہ بدل گیا
سنتا نہیں ہے کوئی صدائیں اے مہ جبیں
محفل میں کیسے پھر وہ سنا کر غزل گیا
مہ جبین ملک ( لاہور )