ایک پیغام ہے وہ عام کروں یا نہ کروں

کشمکش میں ہوں کہ یہ کام کروں یا نہ کروں

ایک پیغام ہے وہ عام کروں یا نہ کروں

عشق تو عشق ہے چھوڑے گا ہی پاگل کرکے

وقت سے پہلے اسے رام کروں یا نہ کروں

بستی سے آیا تھا صحرا میں اقامت کے لیے

اب کھڑا سوچتا ہوں شام کروں یا نہ کروں

میری دولت نے سکوں چھین لیا ہے دل کا

بول اے دل اسے نیلام کروں یا نہ کروں 

پھر سے پوچھا ہے کسی نے یہی بچکانہ سوال 

زندگی اپنی ترے نام کروں یا نہ کروں 

تشنگی ہونٹھ کو کانٹا سا کیے دیتی ہے

پھر سے لبریز کوئی جام کروں یا نہ کروں 

بھول کر پہنچے جو مے خانہ تو ساقی نے کہا

ناصحا! تجھ کو میں بدنام کروں یا نہ کروں 

دل کو تسکین کسی طور نہیں ہوتی ہے

گردشِ وقت میں آرام کروں یا نہ کروں

شعر سن کر کہا اک صاحب فن نے استادؔ 

بول کچھ اور بھی اکرام کروں یا نہ کروں

 

(کشمکش میں ہوں کہ یہ کام کروں یا نہ کروں)

(ایک پیغام ہے وہ عام کروں یا نہ کروں)

استادؔ بریلوی


پھر سے اک بار اسے پیار کروں یا نہ کروں

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has One Comment

  1. محمد افضل حسین

    شکریہ قبلہ شیئر کرنے کے لیے

جواب دیں