مری نگاہ میں شہپر ہے اک پدر کا وجود

زمانے بھر کی ضرورت ہے دیدہ ور کا وجود
مری نگاہ میں شہپر ہے اک پدر کا وجود

خدا نے باپ کے اندر چھپائی شانِ کرم
رخِ پدر کا ہے عاشق مری نظر کا وجود

وہ اپنی آنکھ میں رکھتا ہے حوصلوں کی چمک
ہے اس کی سعیِ مسلسل میں ہر ظفر کا وجود

مرے وجود کے صحرا میں سایہ دار ہے وہ
ہے سخت دھوپ میں لازم کسی شجر کا وجود

رضا خدا کی چھپی ہے پدر کی مرضی میں
روا نہیں ہے پسر میں رہے شرر کا وجود

یہ زندگی رہے منزل سے ہر گھڑی نزدیک
پدر کی شکل میں پائے جو ہم سفر کا وجود

بزرگ باپ کا ہر تذکرہ ہے نظمِ حیات
کلامِ رب میں ہے یعقوبِ مقتدر کا وجود

ذبیح جس کا ہو فرزند، ہے وہ رب کا خلیل
خدا کے نام پہ قرباں کیا پسر کا وجود

مری رگوں میں ہے احسن دمِ ادب آمیز
اسی کے دم سے چمکتا ہے مجھ بشر کا وجود

(زمانے بھر کی ضرورت ہے دیدہ ور کا وجود)
(مری نگاہ میں شہپر ہے اک پدر کا وجود)

توفیق احسن برکاتی


کھلاتی ہے مجھے ہر روز لقمہِ شیریں

ہے کتنی میٹھی یہ ماں کی محبتوں کی شراب

مرے دل کے سبھی زخموں پہ وہ مرہم لگاتی ہے

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has One Comment

جواب دیں