غزل غیر مردف
نویدِ سروِسخن ہے ہوئےہیں عنواں شاد
غزل ہے غیر مردّف، ہے قافیے کی کشاد
دغا، وہ وعدۂ فردا، وہ عشق کی فریاد
سنی سنی سی لگے ہے رقیب کی روداد
سپردِ مہر ہوئے انتظارِ گل کے چراغ
ضیاپرست پہ آیا ہی کیوں دلِ شب زاد
کبابِ سوختہ بر آتشِ دو شعلہ ملا
اب اور چاہیے کیا بہرِ طُعمۂ بیداد
خمار خانۂ عشرت بنے نہ کیوں زنداں
لبالب از مئے تازہ ہے غمزۂ صیاد
فزوں ہو روز تری عشوگی مرے ساقی
نظر لگا دے نہ تجھ کو یہ ناصحِ برباد
جنون عارضۂ دل کہ رفتہ رفتہ چڑھے
پہ عشق سروِ اجل جانِ یار پر افتاد
خیالِ یار سے بے گانہ، تنہا، ہو بیٹھا
ہجوم، وحشتیں کرتا ہے اور ہی ایجاد
مثالِ مَعبدِ مومن ہوئی ہے یہ ہستی
دروں شکستہ تو ظاہر ہے خانۂ آباد
نگاہِ رہروِ الفت میں ہے وہ خوں پیدا
کہ دشت زار کو کہتی ہے مزرعِ دلشاد
فلک نہ دیکھ اےدہقاں توباغ کی لےخبر
کیے ہے بلبلِ ناداں، بہار کو ناشاد
وصولِ آرزو ایصالِ حق میں مُضمَر ہے
وہاں ارادہ سے پیچھے نہیں وجودِ مراد
ہے دل اسیرِ غلو تو خرد تہِ تفریط
چلی ہے کیسی پریشاں ملوکیت کی باد
ہیولیٰ ہستیِ دلبر کا ہے تصورِ خام
گماں پہ آہ! رکھی ہے یقین کی بنیاد
بھلا یہ گفتۂ اردو ہمیں نہ آئے اسیرؔ
اَوَدھ نژاد ہیں، اردو ہے اپنی خانہ زاد
از :فضیل رضا اسیر قادری
ہر ایک ذرہ جو موجود کائنات میں ہے