ہم خاک کے آسودوں کو آرام نہ آیا

تا گور کے اوپر وہ گل اندام نہ آیا
ہم خاک کے آسودوں کو آرام نہ آیا

بے ہوش مئے عشق ہوں کیا میرا بھروسا
آیا جو بخود صبح تو میں شام نہ آیا

کس دل سے ترا تیر نگہ پار نہ گذرا
کس جان کو یہ مرگ کا پیغام نہ آیا

دیکھا نہ اسے دور سے بھی منتظروں نے
وہ رشک مہ عید لب بام نہ آیا

سو بار بیاباں میں گیا محمل لیلیٰ
مجنوں کی طرف ناقہ کوئی گام نہ آیا

اب کے جو ترے کوچے سے جاؤں گا تو سنیو
پھر جیتے جی اس راہ وہ بدنام نہ آیا

نے خون ہو آنکھوں سے بہا ٹک نہ ہوا داغ
اپنا تو یہ دل میرؔ کسو کام نہ آیا

میر تقی میر


خودکشی مت کرو

دل کی پوری آرزو ہونے لگی

ہر ایک ذرہ جو موجود کائنات میں ہے

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has One Comment

جواب دیں