ہم نشیں تو نہ سہی ہم سفر کوئی تو ہو
اپنے تو چھوڑ گئے سب مگر کوئی تو ہو
ہار بیٹھا ہوں ترے نام پر اپنا ہی آپ
میری خاطر تری گلی میں در کوئی تو ہو
واسطہ خود سے نہیں بھی ہے میرا ابھی تک
پھر بھی تجھ سے ہی مراسم مگر کوئی تو ہو
تو نہ جلا کے اڑھا میری میت یوں ابھی
مٹی کے واسطے گوشہ کہ گھر کوئی تو ہو
کوئی مخلص نہیں ہے دشتِ تنہائی میں یاں
باتِ مخلص پہ ہی یوسف سفر کوئی تو ہو
یوسؔف میمن