نچھاور اس پہ دولت اور جاں ہے
ہمارا ملک جو جنت نشاں ہے
نہیں قابل سنانے کے زباں ہے
بڑی ہی خونچکاں یہ داستاں ہے
ثبوت عاشقی کو کیسے کیسے
لیا جاتا ہمارا امتحاں ہے
بتا ! اے گردشِ ایام تو ہی
وہ ہم سے آج کیوں کر بدگماں ہے
قبائے عزت و شہرت نہ کاٹے
جو مثل قینچی کے تیری زباں ہے
سکون عاشقی مل جائے فارِح
جدائی کے لیے تیار جاں ہے
محبت قلب کے اندر نہاں ہے
نبی کا روضۂ اطہر جہاں ہے
نبی کی نعت جو ورد زباں ہے