ہمارے ملک میں آه و فغاں ہے
سڑک پر بے بسی میں نوجواں ہے
غریبوں کے لیے نصرت کہاں ہے
ہمارا بے خبر جب پاسباں ہے
مذمت ہم کریں ظلم و ستم کی
"اب اتنی بھی ہمیں جرأت کہاں ہے”
بتایا جا رہا ہے شاد ہیں سب
حقیقت آج کل کس سے نہاں ہے
لگی ہے آگ جب اس کے بیاں سے
نشانے پر مرا پھر کیوں مکاں ہے
مٹاؤ گے مجھے کیسے مرا جب
زمینِ ہند پر نام و نشاں ہے
سر محفل جو ہم نے حق سنایا
مخالف اس لیے سارا جہاں ہے
بیاں کر دوں تو رُوئے گا فلک بھی
لکھی جو میرے خوں سے داستاں ہے
حقیقت سن نہیں سکتا ہے شمسی
بڑا کم ظرف میرا حکمراں ہے
شمس الحق علیمی مہراج گنج یوپی
دل کی پوری آرزو ہونے لگی