ہماری آنکھ سے آنسو چھلک نہیں سکتا

ہماری آنکھ سے آنسو چھلک نہیں سکتا

 

تمہارا قلب ہمیشہ دھڑک نہیں سکتا
مرے بغیر چمن میں چہک نہیں سکتا

کیا ہے خون کسی نے بھروسے کا ورنہ
ہماری آنکھ سے آنسو چھلک نہیں سکتا

گلی گلی سے ہوں واقف میں اِک زمانے سے
تمھارے شہر میں آکر بھٹک نہیں سکتا

تمھاری یاد دلائے جو شئ مجھے ظالم
اسے مٹانے سے ہرگز ہچک نہیں سکتا

چمک رہا ہے زمانے میں بن کے وہ خورشید
جسے کہا تھا تمھیں نے چمک نہیں سکتا

نگاہِ عشق نہ ڈالے کوئی مرے اوپر
مرا یہ قلب دوبارہ بہک نہیں سکتا

دغا فریب وراثت میں ہے ملی "شمسی
خلوص چہرے سے اس کے ٹپک نہیں سکتا

شمس الحق علیمی مہراج گنج یوپی


یہ راز کیا ہے کسی کو بتا نہیں سکتا

دل سے اس کو لگا نہیں سکتا

ملال دل سے مرے یہ نکل نہیں سکتا

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has 2 Comments

جواب دیں