ہمیں تمھاری دشمنی و دوستی بھی یاد ہے

غزل
"یاد ہے”

ہمیں تمھاری دشمنی و دوستی بھی یاد ہے
بتاؤ جان جاں تمھیں یہ دل لگی بھی یاد ہے

شعور کو سنوارنے کی خواہشیں لیے ہوئے
جو مدتوں سے نکلے ہیں انھیں کوئی بھی یاد ہے

تو چھت کے نیچے آ گیا ، مگر سکون کے لیے
جہاں ہوئی تھی پرورش وہ جھونپڑی بھی یاد ہے؟

جدیدیت کی شاعری پہ ناز کرتے شاعرو!
بزرگوں کی لکھی ہوئی غزل کوئی بھی یاد ہے؟

بھلا چکا ہوں باتیں سب، مرے دماغ کو مگر
تمھارے حسن پر غزل لکھی ہوئی بھی یاد ہے

قرار جس کی دید سے ملا تھا روز و شب تجھے
وہ پتلی دبلی سانولی سی من چلی بھی یاد ہے

تو گزرے پل کی یاد کو کریدنے لگا ہے سن!
ادائیں اس کی شوخ تھیں مجھے ابھی بھی یاد ہے

جناب شیخ! میکدے کو جا رہے تھے ایک دن
ارادہ کیا تھا آپ کا مجھے ابھی بھی یاد ہے

جگہ جگہ پہ چھائے ہو لگاکے رٹ غزل غزل
بتاؤ ! کوئی اک غزل "غلام” کی بھی یاد ہے

(ہمیں تمھاری دشمنی و دوستی بھی یاد ہے)
(بتاؤ جان جاں تمھیں یہ دل لگی بھی یاد ہے)

 

از ۔ غلام ربانی فارح مظفرپوری

 


 

گلی گلی سجائیے مرے حضور آئے ہیں

تنہائیوں میں بیٹھ کے کہنے غزل گیا

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

جواب دیں