غزل
کیا کسی بھائی کی بھائی سے لڑائی ہوتی
ہم نے نفرت کی جو دیوار گرائی ہوتی
میں تجھے روک کے رکھ لیتا محبت کے لیے
یاد بن کر ہی کر سہی دل میں تو آئی ہوتی
اس زمانے میں کبھی پھر تو نہ رسوا ہوتا
اپنی پہچان جو ایمانی بنائی ہوتی
فرقہ وارانہ فسادات کراتا نہ کبھی
فکر یکجہتی اگر ذہن میں آئی ہوتی
ہائے محرومیِ انداز سیاست اپنی
قوم کےساتھ کبھی کی جو بھلائی ہوتی
عدل وانصاف کے رستے پہ جو چلتی فارِح
کفر سے قوم کبھی مات نہ کھائی ہوتی
فارح مظفرپوری