ہنسی لبوں پہ، دلوں کو قرار دیتا ہے
وہی خداہے جو عز و وقار دیتا ہے
ہے رزق کیڑوں کودیتا تہِ سمندر میں
کبھی وہ رب من و سلویٰ اتار دیتا ہے
نجات بخشنا چاہے اگر وہ بندے کو
تو دل میں عشقِ محمد اتار دیتا ہے
کیا ہے وعدۂ "لاتقنطو” اسی رب نے
جو بنجروں کو بنا سبزہ زار دیتا ہے
سکون دیتا ہے پل بھر میں قلبِ مضطر کو
وہ لفظِ کُن سے مقدر سنوار دیتا ہے
رحیم کتنا ہے بندوں پہ اپنے وہ خالق
جو عاصیوں کو بھی تاجِ وقار دیتا ہے
وہی ہےقادرِ مطلق جو بحرِ رحمت سے
"گلوں کو رنگ، چمن کو بہار دیتا ہے”
ہے سلب کرتا کبھی شاہ کی شہنشاہی
کبھی فقیر کو وہ اقتدار دیتا ہے
وہ کھول دیتا ہے فورا ہی بابِ نصرت کو
کہیں سے جب کوئی بندہ پکار دیتا ہے
وہ چھوڑ دیتا ہے ظالم کو ایک مدت تک
نہ سنبھلے پھر بھی تو ذلت کی مار دیتا ہے
وہی ہے خالقِ عالم بنایا سب اس نے
وہ ایک ذرے کو پل میں نکھار دیتا ہے
کھِلا کے پھول حسیں گلشنِ تخیُّل میں
کلامِ بدر کو وہ رب سنوار دیتا ہے.
بدرالدین بدر قادری
فیض آباد