شام
ہوئی شام سونے کا وقت آ گیا
اندھیرا سا چاروں طرف چھا گیا
گیا ڈوب پچھم میں جب آفتاب
افق پر چمکنے لگا ماہتاب
پرند آشیانے میں جانے لگے
مویشی بھی جنگل سے آنے لگے
فلک پر ستارے چمکنے لگے
جواہر کی صورت دمکنے لگے
ہیں سب صاف صاف اور نکھرے ہوئے
ہراک سمت موتی سے بکھرے ہوئے
چمکتے بھی ہیں جھلملاتے بھی ہیں
تمھارے دلوں کو لبھاتے بھی ہیں
مسافر نے کھولی سرا میں کمر
ہے پردیس میں جو، یہی اس کا گھر
کسان اپنی کھیتی سے فارغ ہوئے
اٹھا ہل کو کندھے پہ گھر کو چلے
دعا اس طرح سارا بازار بند
کہ آنکھیں کرے جیسے بیمار بند
نہ آندھی نہ ابر اور نہ گردوغبار
مزہ دیتی ہے آسماں کی بہار
غرض یہ کہ دنیا میں آئی ہے شام
خدا نے عجب شی بنائی ہے شام
(ہوئی شام سونے کا وقت آ گیا)
(اندھیرا سا چاروں طرف چھا گیا)
از : شفیع الدین نیر
سورج چاچا
درختوں سے محبت ، از: مدحت الاختر