حسنؔ شناسی تاریخ کے آئینے میں

حسنؔ شناسی تاریخ کے آئینے میں

’’حسن شناسی‘‘ اگرچہ ایک مظلوم عنوان رہا ہے لیکن گزشتہ ایک سو چودہ سالوں میں اس حوالے سے مختلف علمی و ادبی حلقوں میں کچھ نہ کچھ تحریک بیدار ہوتی رہی ہے۔جس کی کچھ تفصیل یہاں پیش کی جاتی ہے:
۱۔ سب سے پہلے تو حضرت حسنؔ بریلوی کے محبّین، تلامذہ و اولاد نے بروقت توجہ کرتے ہوئے مولاناحسنؔ کے غزلیہ اور نعتیہ دیوان کو شائع کیا۔ حسنؔ بریلوی کے تلامذہ نے اُستاذ کے وصال نیز دیوان غزلیہ و نعتیہ کی اشاعت پر قطعات تواریخ رقم کیے۔ حسنؔ بریلوی کے ایک شاگرد حکیم برکت علی نامیؔ نے ’’تذکرۂ مختصر‘‘ بھی تحریر کیا۔
۲۔ حسنؔ بریلوی کی بعض کتب و رسائل مثلاً دین حسن، آئینۂ قیامت، نگارستانِ لطافت اور نعتیہ دیوان ذوق نعت کو متعدد بار شائع کیا گیاجس کے سبب علمی و ادبی حلقوں میں حسنؔ بریلوی کی یاد تازہ رہی۔البتہ مولانا کی دیگر تصانیف منظر سے غائب ہو تی گئیں یہاں تک کہ ربّ کریم کی عطا کردہ توفیق و عنایت سے راقم نے اپنے دیگر احباب کے تعاون سے انہیں تلاش کیا اورانڈیا کے ایک فاضل دوست جناب محمد افروز قادری کی معاونت سے ’’کلیات حسن‘‘ اور ’’رسائل حسن‘‘ کے ناموں سے دو جلدوں میں مدوّن کیاجو کہ ۲۰۱۲ء میںبیک وقت پاک و ہندسے شائع ہوئیں۔
۳۔ مولانا حسرت موہانی نے اپنے رسالہ اُردوئے معلی(علی گڑھ) کے شمارہ بابت نومبر ۱۹۱۱ء میں مولانا حسن رضا بارے مضمون تحریر کیا اور انتخابِ کلام بھی شائع کیا۔
۴۔ ایک ہندو فاضل لالہ سری رام نے اپنی کتاب ’’خم خانۂ جاوید‘‘ میں حضرت حسنؔ بریلوی کا بھر پور اور بہتر انداز میں تذکرہ کیا ہے۔
۵۔ ڈاکٹر سیّد لطیف حسین ادیبؔ بریلوی نے اپنی کتاب ’’چند شعرائے بریلی‘‘ میں حسنؔ بریلوی کی غزلیہ و نعتیہ شاعری پر بہت عمدہ تبصرہ تحریر کیا ہے اور حسن بریلوی کی سیرت وکردار بارے بھی نئی معلومات درج کی ہیں۔
۶۔ معروف مؤرخ جناب مرید احمد چشتی مرحوم کی تحریک پر محترم اصغر حسین خان نظیرؔ لدھیانوی نے حسن بریلوی کے غزلیہ اور نعتیہ دیوان پر شاندار تبصرہ تحریر کیا جو کہ ’’شعر حسن‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔
۷۔ اقبال اختر قادری لکھتے ہیں: ۱۹۸۷ء میں لاہور کی ’’مجلس سخن‘‘ کے زیر اہتمام حضرت حسنؔ بریلوی کی یاد میں لاہور انٹرنیشنل ہوٹل میں ایک کانفرنس بعنوان ’’تذکارِ نعت گستر‘‘ منعقد ہوئی۔ جس میں حضرت حسنؔ بریلوی کے فکر وفن پر مضامین ومقالہ جات پڑھے گئے۔ اور بعض مشہور نعت خواں حضرات نے ان کا نعتیہ کلام سنایا۔ اس کانفرنس میں پڑھے گئے مضامین کو ’’ماہنامہ نعت‘‘ لاہور نے اپنے خصوصی نمبر’’ حسنؔ رضا بریلوی کی نعت‘‘ شمارہ جنوری ۱۹۹۰ء میں بہت شاندار طریقہ سے شائع کیا ہے۔ اس میں درج ذیل عنوانات ہیں:
(۱) نعت حسنؔ پر ایک طائرانہ نظر از، حزیں کا شمیری
(۲) ’’ذوقِِ نعت‘‘ کا شاعر از، اصغرحسین خان نظیرؔ لودھیانوی
(۳) حسن رضا بریلوی کی نعت گوئی از، پروفیسر ڈاکٹر سیّد اختر جعفری
(۴) حضرت حسنؔ بریلوی اور ان کی شاعری از ،قسیم الدین احمد
(۵) محبت کا شاعر از، راجا رشید محمود
۸۔ کراچی کے ایک پبلشنگ ادارے ’’مدینہ پبلشنگ کمپنی‘‘ نے حسن بریلوی کے نعتیہ دیوان ’’ذوقِ نعت‘‘ کو حضرت علامہ شمس بریلوی کے تحقیقی مقالہ ’’ذوقِ نعت پر ناقدانہ نظر‘‘ کے ساتھ شائع کیا ہے۔
۹۔ پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری (چیف ایڈیٹر اُردو ڈکشنری بورڈ پاکستان) نے اپنی کتاب ’’اُردو کی نعتیہ شاعری‘‘ میںحضرت حسنؔ بریلوی کا ذکر نمایاں انداز میں کیا ۔
۱۰۔ پروفیسر ڈاکٹر نفیس سندیلوی نے رسالہ ’’نگار‘‘ کے ’’داؔغ نمبر‘‘ میں ، مولانا حسرت موہانی نے اپنی تصنیف ’’نکات سخن‘‘ میںحسنؔ بریلوی کا ذکر احسن انداز میں کیا۔
۱۱۔ ڈاکٹر سیّد شمیم گوہر نے ’’نعت کے چند شعرائے متقدمین‘‘ میں حضرت حسنؔ بریلوی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے اور ان کے کلام کی خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے۔
۱۲۔ ذوق نعت مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی کے متن پر علامہ شمس بریلوی کا تحقیقی مقالہ’’ذوق نعت پر ایک ناقدانہ نظر‘‘ شائع ہوا۔
۱۳۔ ماہنامہ سُنّی دنیا، بریلی کے مدیر مولانا شہاب الدین رضوی (انڈیا)نے مولانا حسن رضا نمبر ۱۹۹۴ء میں شائع کیا جس میں متعدد اہل علم و تحقیق نے حضرت حسنؔ بریلوی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے تحقیقی و تجزیاتی مقالات تحریر کیے ہیںجن پر مفتی تحسین رضا خان تحسینؔ بریلوی اور مفتی حبیب رضا خان حبیبؔ بریلوی نے نظر ثانی اور تصحیح کا کام انجام دیا۔ کل مقالات کی تعداد تقریباً ۳۱ہے۔ معروف اہل قلم کے نام یہ ہیں:مولاناحامد رضا خان بریلوی، مولانا حبیب رضا خان بریلوی، حکیم سیّد برکت علی نامیؔ بریلوی، مولانا حسرت موہانی، ڈاکٹر ادیب بریلوی، مرزا عبدالوحید بیگ بریلوی، ڈاکٹر سیّد عبداللہ طارق، ڈاکٹر مولانا امجد رضا خان ، مفتی عبدالمبین نعمانی، علامہ سبطین رضا خان، مولانا شمشاد حسین رضوی، مولانا سیّد اکمل اجملی، ڈاکٹر سیّد شمیم گوہر، مولانا حضور احمد منظری، مولانا قمرالزمان مصباحی، صاحبزادہ سیّد وجاہت رسول قادری، ڈاکٹر اسعد بدایونی، ڈاکٹر سراج احمد القادری بستوی، علامہ شبنم کمالی، مولانا اقبال احمد قادری، مولانا اخترحسین فیضی، مولانا محمد رفیق عالم رضوی، صوفی محمد جمیل اختر رضوی، نازاں فیضی، مولانا محمد نجف القادری، مولانا محمد ادریس رضوی، شاہ احمد حسین قادری، مولانا مظفراحمد قادری، عبدالغفار انصاری، مولانا بشارت علی رضوی۔
یہ نمبر اپنے مشمولات کے اعتبار سے نہایت اہم ہے لیکن مولانا کے ذاتی حالات و واقعات اور اخلاق و کردار کے متعلق زیادہ تحریریں شامل نہیں ہیں۔
۱۴۔ ڈاکٹر اسعد بدایونی نے اپنی کتاب ’’داؔغ کے اہم تلامذہ‘‘ میں حسن بریلوی پر مضمون لکھا اور ان کی نعتیہ و غزلیہ شاعری پر اپنا تجزیہ پیش کیا ہے۔
۱۵۔ مجاہد ملت مولاناعبدالستّار خان نیازی نے مولانا حسن رضا کی کتاب ’’آئینۂ قیامت‘‘ پر ایک مبسوط مقدمہ ’’پیغام حیات‘‘ کے نام سے تحریر کیا جسے ظہورالدین امرتسری نے اپنے ادارہ سے شائع کیا۔
۱۶۔ ڈاکٹر حسین مجیب المصری(م۱۴۲۵ھ/۲۰۰۴ء)قاہرہ(مصر)کے مشہور ادیب و شاعر، محقق و مؤرخ تھے۔ اُردو، فارسی سمیت متعدد زبانوں پر عبور حاصل تھا۔اُردو کے اکابر ادباء و شعراء غالب، اقبال وغیرہ کے منتخب کلام کوعربی میں منظوم کر کے اپنی کتب میں پیش کیا۔ آپ تین بار پاکستان تشریف لائے اور ۱۹۷۷ء میں علامہ اقبال ایوارڈ نیز ۱۹۸۸ء میں حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈ پیش کیے۔ آپ نے متعدد تصانیف رقم کیں جن میں سے ’’کربلابین الشعراء الشعوب الاسلامیۃ‘‘قاہرہ سے ۲۰۰۰ء میں شائع ہوئی۔جن میں مولانا حسن رضا خان فاضل بریلوی کے منتخب کلام کا عربی منظوم ترجمہ بھی درج ہے۔
۱۷۔ محترمہ گلشن آراء نے ۲۰۰۳ء میں جواہر لال یونیورسٹی (نئی دہلی،انڈیا) سے ’’مولانا حسن رضا کی ادبی خدمات‘‘ کے عنوان سے مقالہ تحریر کیا اور ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔
۱۸۔ ڈاکٹر محمد سعید طریحی(پ۱۹۵۴ء/۱۳۷۶ھ)عراق کے شہر کوفہ کے باشندہ اور اب ہالینڈ میں مقیم ہیں۔ شیعہ مکتب فکر کے اہم محقق ، مؤرخ، صحافی اور سیّاح ہیں۔ ۱۹۸۵ء میں ہندوستان آئے اور کچھ عرصہ قیام کرکے علمی مواد جمع کیا۔ بعداَزاں برصغیر کے متعلق عربی میں متعدد کتب تحریر کیں۔ مشاہیرہندکے اَحوال پر کتاب ’’اعلام الھند‘‘ لکھی جو ۲۰۰۵ء میں بیروت سے دوجلدوں میں شائع ہوئی۔ اس میں مولانا حسن رضا خان بریلوی کے اَحوال بھی درج کیے۔
۱۹۔ پروفیسر منیرالحق کعبی نے ’’نگارستانِ لطافت‘‘ مصنفہ مولانا حسن رضا خان پر ایک مقالہ ’’قوت بازوئے امام احمد رضا‘‘ کے نام سے تحریر کیا جو کہ اسی کتاب کے ساتھ مسلم کتابوی (لاہور) سے شائع ہوا۔
۲۰۔ رسالہ ’’نعت رنگ‘‘ (کراچی) کی جلد ۱۸ ’’امام احمد رضا نمبر‘‘ میں ڈاکٹر صابر سنبھلی کا تحقیقی مقالہ بعنوان ’’مولانا حسن رضا خان اور اعلیٰ حضرت میں کچھ مماثلتِ طرح‘‘ شائع ہوا۔ڈاکٹر صابر سنبھلی کا ایک تحقیقی مضمون ’’مولانا حسن رضا خان کی نعتیہ شاعری‘‘ بھی دستیاب ہوا، جسے ہم نے پیش نظر کتاب کا حصہ بنادیا ہے۔
۲۱۔ ڈاکٹر سراج احمد القادری بستوی نے اپنے پی ایچ ڈی مقالہ ’’مولانا احمد رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری۔۔ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ میں مولانا حسن رضا خان کے متعلق لکھا ہے، نیز ڈاکٹر صاحب نے ’’مولانا احمد رضا ؔ بریلوی اور مولانا حسن ؔرضا بریلوی کی نعتیہ شاعری کا ایک موازناتی مطالعہ‘‘کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ بھی تحریر کیا جو کہ انڈیا کے کسی مجلہ میں شائع بھی ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے راقم کو اس کی سوفٹ فائل بذریعہ ای میل مہیا کی۔افسوس کہ ڈاکٹر صاحب سے رابطہ اُس وقت ہوا، جب پیش نظر کتاب ترتیب و تدوین کے آخری مراحل میں تھی۔
۲۲۔ ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی (مالیگاؤں،انڈیا) نے ’’مولانا حسن رضا کی نعتیہ شاعری‘‘ کے متعلق ایک مقالہ تحریر کیا تھا جو کہ پیش نظر کتاب میں شامل ہے۔نیز ڈاکٹر صاحب نے ہماری مرتبہ کتاب ’’کلیات حسن‘‘ پر بھی تجزیاتی مقالہ تحریر کیا تھا جو کہ ان کے ویب بلاگ پر موجود ہے۔
۲۳۔ ڈاکٹر سراج احمد القادری بستوی نے اطلاع دی کہ ’’حسن رضا کی نعتیہ شاعری‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر تحسین فاطمہ نے پروفیسر ناز قادری کی زیر نگرانی تحقیقی مقالہ تحریر کیا جس پر ۲۰۰۶ء میں بہار یونیورسٹی (انڈیا) نے اُنہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا۔
۲۴۔ راقم نے ۲۰۱۱ء میں ’’مولانا حسن رضا خان کی تصنیفی خدمات‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ تحریر کیا جس میں مولانا کی منظوم و منثور تمام تصانیف کا تعارف کروایا گیا۔ راقم کا یہ مقالہ پاکستان میں پہلی مرتبہ ماہنامہ سوئے حجاز(لاہور)نے تین اقساط میں شائع کیا، پھر معارف رضا(کراچی) نے غالباً ۲۰۱۲ء کے سالنامہ میں یکجا شائع کیا۔ یہی مقالہ انڈیا کے رسالہ یادگارِ رضا(مالیگاؤں) نے بھی اپنے سالنامہ میں شائع کیا، نیز متعدد ماہناموں نے قسط وار بھی شائع کیا تھا۔
۲۵۔ ۲۰۱۲ء میں ہی پروفیسر ضیاءالمصطفیٰ قصوری مرحوم نے مولانا حسن رضا کا غزلیہ دیوان ’’ثمرفصاحت‘‘ جدید کمپوزنگ کے ساتھ اپنے ادارہ’’رضا پبلیکیشنز‘‘ سے شائع کیا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے اس پر مقدمہ لکھا جو مختصر ہوتے ہوئے بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹرخورشید رضوی کا یہ مقالہ پیش نظر کتاب میں شامل ہے۔
۲۶۔ ۲۰۱۲ء میں راقم اور مولانا افروز قادری چریاکوٹی کی مشترکہ کاوش سےمولانا حسن رضا کی جملہ منظوم و منثور تصانیف یکجا شائع ہوئیں۔ نثری کتب و رسائل کے مجموعہ کو ’’رسائل حسن‘‘اور منظومات کے مجموعہ کو ’’کلیات حسن‘‘ کا نام دیا گیا۔یہ دونوں کتب بیک وقت پاکستان اور ہندوستان سے شائع ہوئیں۔انڈیا کے احباب نے ’’کلیات حسن‘‘ شائع کرتے ہوئے حضرت حسنؔ بریلوی کا غزلیہ دیوان ’’ثمرفصاحت‘‘ خارج کر دیاتھا۔
۲۷۔ مولانا محمد ادریس رضوی(گلبرگہ) نے ’’اُستاذِ زمن ،علم و عمل اور فکروفن کے عظیم پیکر‘‘کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا تھا کہ جو ماہنامہ سُنّی دنیا(بریلی) کے ’’حسن رضا نمبر‘‘ میں شائع ہوا۔ نیز ہماری مرتبہ کتاب ’’کلیات حسن‘‘ کے متعلق تعارفی مضمون بھی تحریر فرمایا جو کہ پیش نظر کتاب کا حصہ ہے۔
۲۸۔ جانشین شرفِ ملت ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی الازھری کی زیر نگرانی منہاج یونیورسٹی (لاہور) کے ایک طالب علم راشد علی رضوی نے مولانا حسن رضا کی شاعری کے فنّی و لسانی جائزے پر ایم فل کا مقالہ تحریر کیا۔
۲۹۔ سہ ماہی رسالہ مدحت، لاہورکے مدیر معروف نعت خوان، نعت گو شاعر اور صحافی محترم سرور حسین نقشبندی نے جلد نمبر۱،شمارہ نمبر ۱۱،۱۲،۱۳بابت مارچ تا نومبر ۲۰۱۷ء کا ایک حصہ ’’گوشۂ حسن رضا بریلوی‘‘ کے عنوان سے مختص کیا اور معروف اہل قلم کے تحقیقی مقالات کو اس خصوصی شمارہ میں جگہ دی۔
۳۰۔ مولانا حسن رضا بریلوی کی علمی و ادبی خدمات پر ہندوستان کے ایک دوست ڈاکٹر حامد علی نے پروفیسر محمد عبدالحمید اکبر کی زیر نگرانی تحقیقی مقالہ تحریر کیا جس پر گلبرگہ یونیورسٹی (انڈیا) نے انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری ایوارڈ کی ہے۔ (یہ مقالہ نیٹ پر دستیاب ہے)
۳۱۔ کراچی کے ایک دوست محترم محمد عتیق شاہ مرسل قادری نے’’ محاکاتِ امام حسن رضا کا خصوصی مطالعہ،ذوق نعت کے تناظر میں‘‘ ایم فل کامقالہ تحریر کیا ہے اور معائنہ کے لیے فیڈرل اُردو یونیورسٹی آف سائنس اینڈٹیکنالوجی، کراچی میں جمع کروا دیا ہے۔
۳۲۔ ڈاکٹر مشاہد رضوی(انڈیا) نے خبردی کہ اُن کے کزن محترم نورمحمد ابن پیر محمد نے پنیہ شلوک اہلیہ بائی ہولکر سولاپور یونیورسٹی، سولاپور (مہاراشٹر، انڈیا)میں پی ایچ۔ڈی مقالہ بعنوان ’’حسن رضا بریلوی کی نثری و شعری خدمات کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘‘کے لیے رجسٹریشن ہو چکی ہے۔
۳۳۔ محترم اظہر عباس علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ’’حسن رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری کا موضوعاتی اور تکنیکی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے ایم فل (اُردو ادب) کے لئے تحقیقی مقالہ تحریر کر رہے ہیں۔
۳۴۔ پیش نظر کتاب’’حسن رضا بریلوی: فن اور شخصیت‘‘ پیش خدمت ہے۔

محمد ثاقب رضا قادری


يه بھي پڑھيں:

نسل اس کی مشک بو ہونے لگی

اُن کی جس دم گفتگو ہونے لگی

رسی تو جل چکی ہے ابھی تک نہ بَل گیا

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

جواب دیں