الٰہی اور فزوں ہو شبابِ آزادی

دکھائے رنگ سوا انقلابِ آزادی
الٰہی اور فزوں ہو شبابِ آزادی

سیاہ رات غلامی کی لمبی گزری ہے
طلوع تب ہے ہوا آفتابِ آزادی

ترے بزرگوں نے کیا کیا , کیا وطن کے لئے
"کبھی تو کھول کے پڑھ لے کتابِ آزادی”

لہوسے اپنے جیالوں نے اس کو سینچا ہے
کِھلا ہے یوں ہی نہیں یہ گلابِ آزادی

کھری امیدوں پہ اتری ہے کیا بزرگوں کے
کرو سکوں سےکبھی احتسابِ آزادی

شہادتوں سے ہماری ہی سرخروئی ہے
بِنا ہمارے ادھورا ہے بابِ آزادی

بہت ضروری معظّم ہے اپنی نسلوں کو
پڑھاؤ کھل کے مکمّل نصابِ آزادی

(دکھائے رنگ سوا انقلابِ آزادی)
(الٰہی اور فزوں ہو شبابِ آزادی)

معظّم ارزاں شاہی دوست پوری


نئے افق پہ نیا آفتابِ آزادی

جو دیکھتے ہیں شب و روز خواب آزادی

اسی سے لاٸیں گے ہم انقلاب آزادی

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has One Comment

جواب دیں