اسی سے لاٸیں گے ہم انقلاب آزادی

ملا ہوا ہے جو ہم کو شباب آزادی
اسی سے لاٸیں گے ہم انقلاب آزادی

اگر تو کہتا ہے تونے کیا وطن آزاد
تو دے دے ہم کو اے حاکم حساب آزادی

کچھ اس طرح کی محبت تھی ملک سے ہم کو
لہو سے لکھ دیا ہم نے نصاب آزادی

اب ان کا نام فقط رہ گیا کتابوں میں
جو لے کے آئے یہاں انقلاب آزادی

سبھی شہیدوں کا احسان ہے وطن تجھ پر
مہک رہا ہے جو اب تک گلاب آزادی

کیا ہے کیا ترے اجداد نے وطن کے لیۓ
اے ناداں کھول کے پڑھ لے کتاب آزادی

کچھ اس لیۓ بھی میں گمنام ہوں یہاں کوکب
میں چاہتا تھا غریبوں کی خواب آزادی

(ملا ہوا ہے جو ہم کو شباب آزادی)
(اسی سے لاٸیں گے ہم انقلاب آزادی)

کوکب رضا نورانی
لچھمی پور بدایونی


نصیب سے ہی ملے آفتاب آزادی

تمھیں کہو کہ کہاں کھو گئ ہے آزادی

لہو سے کی ہے مرتب کتاب آزادی

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has 2 Comments

جواب دیں