جنوری گزرا نہیں تھا اور دسمبر آ گیا
راحت اندوری
راستے میں پھر وہی پیروں کا چکر آ گیا
جنوری گزرا نہیں تھا اور دسمبر آ گیا
یہ شرارت ہے، سیاست ہے، کہ ہے سازش کوئی
شاخ پر پھل آئے اس سے پہلے پتھر آ گیا
میں نے کچھ پانی بچا رکھا تھا اپنی آنکھ میں
ایک سمندر اپنے سوکھے ہونٹ لے کر آ گیا
اپنے دروازے پہ میں نے، پہلے خود آواز دی
اور پھر کچھ دیر میں، خود ہی نکل کر آ گیا
راحت اندوری