جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا

کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

 

شرمندہ ترے رخ سے ہے رخسار پری کا

چلتا نہیں کچھ آگے ترے کبک دری کا

 

آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت

اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا

 

زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی

اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا

 

ہر زخم جگر داور محشر سے ہمارا

انصاف طلب ہے تری بے داد گری کا

 

اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو

آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا

 

صد موسم گل ہم کو تہ بال ہی گذرے

مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا

 

اس رنگ سے جھمکے ہے پلک پر کہ کہے تو

ٹکڑا ہے مرا اشک عقیق جگری کا

 

کل سیر کیا ہم نے سمندر کو بھی جا کر

تھا دست نگر پنجۂ مژگاں کی تری کا

 

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا

 

ٹک میرؔ جگر سوختہ کی جلد خبر لے

کیا یار بھروسا ہے چراغ سحری کا

 

(جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا)

(کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا)

میر تقی میر


خودکشی مت کرو

دل کی پوری آرزو ہونے لگی

ہر ایک ذرہ جو موجود کائنات میں ہے

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

جواب دیں