جو مصطفٰے کے عشق کے سانچے میں ڈھل گیا
دنیائے رنج و غم سے وہ آگے نکل گیا
جیسے میں آگیا ہوں مدینہ شریف میں
یوں ذکرِ مصطفٰے سے مرا دل بَہل گیا
پھسلے ہی تھے قدم مرے دوزخ کی راہ پر
سرکار کا کرم ہوا اک دم سنبھل گیا
آتی کہاں سے بو ہے سمجھ تو نہیں سکا
شاید جگر حرارتِ عشقی سے جل گیا
جڑ سے اکھڑ کے آگیا در پر ترے شجر
پتھر قدم کو چوم کے تیرے پگھل گیا
ہر رنج و غم سے مل گئی مجھکو نجات "نور”
آئی نبی کی یاد مرا دل مچل گیا
نورالہدیٰ نور مصباحی