کبھی جب دیکھتا ہوں حالِ مسلم

کبھی جب دیکھتا ہوں حالِ مسلم
کوئی بزدل ہے کوئی سست رَو ہے
کوئی لاچار سا بیٹھا ہوا گھر میں
تلاشِ رزق میں ناکام، بے پروا
نہ دنیا ہے، نہ فکرِ آخرت ہے
سماعت میں اذانیں بے اثر ہیں
نمازوں سے نہیں رغبت ذرا بھی
کبھی جب اپنے من میں سوچتا ہوں
بہت افسوس ہوتا ہے

جہالت کے اندھیروں میں پڑا ہے
کوئی رشتہ نہ علم و آگہی سے
نہ اپنی قوم کا کچھ درد اس کو
زبانوں پر ہیں شر انگیز جملے
جو اہلِ علم ہیں کرتے نہیں کچھ
پریشانی کے باعث ہیں یہ قائد
یہ آوازیں کبھی سنتا ہوں یارو
بہت افسوس ہوتا ہے

کبھی سچ بول دو منہ پر کسی کے
وہ ایسے گھورتا ہے جیسے دشمن
نگاہِ قہر جیسے تاکتی ہو
لہو جیسے اتر آیا ہو اس میں
جھڑک دیتا ہے اپنے محسنوں کو
کبھی نشتر چبھا دیتا ہے دل میں
بہت افسوس ہوتا ہے

نشانے پر کبھی اپنا ہی دیں ہے
کبھی ہے طنز کی بارش ادب پر
کبھی عالم ہے ان کی گفتگو میں
ائمہ ہیں تمسخر کا نشانہ
نمازی پر کبھی ہیں سخت جملے
کبھی لکھتے ہیں قسمت مولوی کی
بہت افسوس ہوتا ہے

سیاست میں نہیں ان کا مقابل
مگر ان کا کوئی جھنڈا نہیں ہے
گلی کوچوں میں، ہوٹل میں سیاست
سکھاتے ہیں ہر اک لیڈر کو باتیں
مگر ان کا کوئی لیڈر نہیں ہے
انھیں سب کی خبر رہتی ہے ہر دم
مگر اپنی خبر سے بے خبر ہیں
بہت افسوس ہوتا ہے

توفیق احسن برکاتی

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

جواب دیں