کیسے کہہ دوں کی مرے دل میں خلہ کچھ بھی نہیں
دردِ کا میرے ابھی تجھ کو پتا کچھ بھی نہیں
مجھ کو مجرم نہ کہو میں نے کیا کچھ بھی نہیں
جس نے کی ہے یہ خطا اس کو سزا کچھ بھی نہیں؟
آج نادانی کا احساس ہوا ہے مجھ کو
اب مرے یار مجھے تجھ سے گِلہ کچھ بھی نہیں
آج کل عشق بھی محدود ہوا جسموں تک
روح کا عشق سے اب ربط رہا کچھ بھی نہیں
ظلم ڈھائے ہیں ستم گر نے وفا کے بدلے
کیا ملا میری وفاؤں کا صلہ کچھ بھی نہیں ؟
مال و ذر ، جان و جگر سب تو فدا کر ہی دئیے
اب لٹانے کو مرے پاس بچا کچھ بھی نہیں
ایسے ماحول میں بچنا بھی ہے مشکل ! فیصل
اس زمانے میں رہی شرم و حیا کچھ بھی نہیں
فیصل قادری گنوری