کشمکش میں ہوں تجھے یاد کروں یا نہ کروں
تجھ سے ملنے کی میں فریاد کروں یا نہ کروں
دل ناشاد کو پھر شاد کروں یا نہ کروں
خود کو غم سے ترے آزاد کروں یا نہ کروں
کر لیا تو نے ستم مجھ پہ جفا بھی کر لی
میری مرضی تجھے برباد کروں یا نہ کروں
یاد رہتی ہے مجھے اب بھی ولادت تیری
سوچتا ہوں ترا میلاد کروں یا نہ کروں
عشق کے نام پہ تونے جو ستم ڈھائے ہیں
اب بیاں ان کی میں روداد کروں یا نہ کروں
بے وفائی پہ غزل تو نے تو کہہ لی اس کی
کچھ حسنؔ شعر میں ایجاد کروں یا نہ کروں
از قلم :محمد حسنؔ منصوری