کون شاد نہیں از : فاتح چشتی مظفرپوری
توجہات کے قابل کوئی مواد نہیں
ادب کو مدحت شہ سے جو استناد نہیں
ثنائے سرور عالم کا حق ادا کردے
وہ کلک و لوح نہیں اور وہ مداد نہیں
کرے گا کیسے ادا کوئی حق وصف گری
تمہارے وصف کا تخمینۂ عداد نہیں
سوائے کنبۂ ابلیس سارے عالم میں
حضور آپ کی آمد سے کون شاد نہیں
تمہارے در کے بھکاری ہیں انس و جن و ملک
تمہارے جیسا کوئی دہر میں جواد نہیں
حضور شورش دوراں سے ہم کو دیجے نجات
ہمارے پاس کوئی طور انسداد نہیں
بسیط ارض میں ہے اک سے ایک شہر حسیں
مدینے جیسا مگر اجمل البلاد نہیں
چلو مدینے کی گلیوں میں چل کے بک جائیں
وہاں کبھی کوئی اندیشۂ کساد نہیں
مدینہ شہر ہے وہ فیض کا، جناں تجھ میں
یہاں کا آب نہیں یا یہاں کی باد نہیں
جو ہوگیا ہے گدائے در شہ عالم
یقین جانو اسے فکر اقتصاد نہیں
ثنائے شاہ کی خو چھوٹ جائے، ناممکن
گناہگار ہوں لیکن دغا نژاد نہیں
مجھے تو چاہیے زنبیل فقر و درویشی
عروج غوری نہیں تخت کیقباد نہیں
عجائبات کے اسرار کو جو کھول سکے
ہمارے بیچ کوئی آج سند باد نہیں
وہی نظام ہے امن و امان کا ہالک
جو ان کی سیرت اقدس سے مستفاد نہیں
جہان ظلم کو جس کے ذریعے دی تھی شکست
ہماری قوم میں وہ جذبۂ جہاد نہیں
کٹیں تو کیسے کٹیں بیڑیاں معاصی کی
ہمارا تیشۂ جذبات قلب حاد نہیں
فضائے شہر وفا سے ہو کیسے عقد ترا
نفس! طناب میں تیری وہ امتداد نہیں
ترا دھڑکنا پھڑکنا فضول ہے اے دل
جو ان کے قدموں پہ ساجد ترا سواد نہیں
سجود، قعدہ، رکوع اور قیام لیل و نہار
عبث ہیں سارے اگر نفس سے جہاد نہیں
فراق و ہجر کے بن زندگانی بے معنی
وہ آدمی بھی ہے؟ جو کشتۂ وداد نہیں
ہر ایک درد جہاں کا گوارا ہے لیکن
دل و نظر کا مدینے سے ابتعاد نہیں
نظر ٹکی ہے فقط آپ کی اعانت پر
ہمارے پاس شہا توشۂ معاد نہیں
تمام عمر گناہوں میں کاٹ دی غافل
سفر طویل ہے اور ساتھ کوئی زاد نہیں
تضاد قول و عمل سے ہمارے، ظاہر ہے
دل و نگاہ کا آپس میں اتحاد نہیں
جو موٹے موٹے لفافوں کے پیچھے چلتے ہیں
وہ رہنما نہیں وہ لائق رشاد نہیں
نہ پوچھ واعظا دیوانہ کیوں بنا فاتح
جنوں کے باب میں تفحیص و انتقاد نہیں
کون شاد نہیں از : فاتح چشتی مظفرپوری
ملک کا ہر بچہ ، بوڑھا اور جواں آزاد ہے