خاموش کاغذ
یہ عنوان شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال کے ایک خط سے ماخوذ ہے جو انھوں نے اکبر الہ آبادی کو لکھا تھا، واقعی خاموش کاغذ کا کردار ہر تحریر کی کہانی میں اہم ہوتا ہے اور انمول بھی، یہ خاموشی نہ ہو تو تکلم بے مزہ ہے، گویا خاموشی ہر تاریخ، ہر داستان، بلکہ ہر کہانی کے وجود میں آنے کا بنیادی سبب ہے، جب قلم کی زبان چلتی ہے اور کاغذ کی خاموش نگاہیں صبر و تحمل کی تلخ نوائی کو جھیلتی ہیں تو تاریخ وجود میں آتی ہے_ ایک داستان گو یا کہانی نویس قلم کی حرکت اور چیخ کا سہارا لے کر رات کے سناٹے میں واقعہ نگاری کرتا ہے، جب صبح نمودار ہوتی ہے تو یہی خاموش اوراق بولنا شروع کرتے ہیں، تاریخ نگار دنیا سے چلا جاتا ہے اور شہر خموشاں میں ہمیشہ کے لیے محصور ہو جاتا ہے لیکن تب بھی کاغذ کا شور نہیں تھمتا، نہ ہی اس کی چیخ بند ہوتی ہے_
اس لیے یاد رکھیں! قلم کے شور کے ساتھ کاغذ کی خاموشی بھی اہم ہے، اس لیے اگر ہم قلم کی بولتی زبان نہیں بن سکتے تو خاموش کاغذ تو بن ہی سکتے ہیں، یہ بھی ایک کام ہے_
توفیق احسن برکاتی