کرو نہ ختم کتابوں سے باب آزادی
عظیم آنکھوں نے دیکھا تھا خواب آزادی
دعا کرو یہ جمالِ سحر رہے قائم
غروب ہو نہ کبھی آفتاب آزادی
عجب قفس سے نکل کر سرور آتا ہے
نشے میں کم نہیں ہوتی شراب آزادی
اداس نسلوں نے کب تک یونہی بجانا ہے
خوشی کی تان سے خالی رباب آزادی
اسی پرندے نے زندان کی ہوا کھائی
الٹ کے جس نے بھی دیکھا نقاب آزادی
وہ دیکھ جھول رہا ہے وفا کی ٹہنی پر
فراتِ چشم سے بھیگا گلابِ آزادی
کبھی گزر نہ خزاؤں کا ہو چمن سے مرے
خدا کرے رہے قائم شباب آزادی
(کرو نہ ختم کتابوں سے باب آزادی)
(عظیم آنکھوں نے دیکھا تھا خواب آزادی)
جمیل حیدرعقیل
This Post Has One Comment
Pingback: نظر میں جن کی سمائے تھے خوابِ آزادی - Global Urdu