خزاں کے بعد وہ جیسے بہار دیتا ہے
غموں کے بعد خوشی بے شمار دیتا ہے
حکیم ایسا کہ وہ بگڑیاں بناتا ہے
رحیم ایسا کہ رحمت ہزار دیتا ہے
یہ بات اس کی مشیت کی ہے جسے چاہے
جہاں کا چاہے اسے اقتدار دیتا ہے
وہ جن و انس کو دیتا ہے بندگی کا شعور
دلوں کو ذکر سے اپنے قرار دیتا ہے
یہ درس دیتا ہے لا تقنطوا ہمیں ہر دم
وہ ایک آن میں قسمت سنوار دیتا ہے
چلا کے دہر میں باد بہار کے جھونکے
"گلوں کو رنگ، چمن کو بہار دیتا ہے”
وہی سجاتا ہے انجم سے آسماں وؔافی
وہی حسیں ہمیں آبشار دیتا ہے
غلام محی الدین وؔافی علیمی
شیوہر بہار