خدا کے فضل سے مہکا گلابِ آزادی

خدا کے فضل سے مہکا گلابِ آزادی
جبینِ چرخ پہ چمکا شہابِ آزادی

حسین والوں نے پسپا کیا یزیدوں کو
ہے فیضِ کرب و بلا فتحِ بابِ آزادی

ہزاروں جسم سروں سے کئے گئے محروم
تو باریاب ہوا انقلابِ آزادی

وہ توڑ ڈالی گئیں وہ مروڑ ڈالی گئیں
جن انگلیوں نے کیا انتخابِ آزادی

رواں نہ اشک ہوئے آنکھ سے تو پھر کہنا
"کبھی تو کھول کے پڑھ لے کتابِ آزادی”

اسی لئے تو بدلنے پہ ہیں تلے اغیار
ہمارے خوں سے رقم ہے نصابِ آزادی

وہ فضلِ حق تھے کفایت علی تھے پرواؔنہ
انہیں نے پہلے دکھایا تھا خوابِ آزادی

(خدا کے فضل سے مہکا گلابِ آزادی)
(جبینِ چرخ پہ چمکا شہابِ آزادی)

کاوش : پرواؔنہ برہانپوری


یقیں ہے آئے گا پھر انقلابِ آزادی

ہمارے خون سے ہے انقلابِ آزادی

ترنگا گھر پہ لگاتے ہیں یوم آزادی

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has 2 Comments

جواب دیں