ہجوم رنج سے جب زندگی اداس رہے
خدایا یاد مدینہ ہمارے پاس رہے
مرے وجود میں گھل جاے جس کی شیرینی
مری زباں پہ درودوں کی وہ مٹھاس رہے
ثناۓ صاحب شق القمر کے زم زم سے
ہمیشہ فکرونظر کا بھرا گلاس رہے
ضرور روضۂ انور پہ وہ بلائیں گے
عمیق قلب سے لب پر بس التماس رہے
حضور آپ کا عاشق رہے خوش وخرم
حضور آپ کا گستاخ بد حواس رہے
وہاں سے مجھ کو میسر ہوں نعت کے مضمون
جہاں سے دور مرا بلبل قیاس رہے
کبھی بھی باد مخالف نہ کرسکے مسمار
مکان عشق کی مضبوط یوں اساس رہے
مرا عمل ،مری گفتار عادت واطوار
حضور پاک کی سیرت کا انعکاس رہے
وہ ایک حرف کو دیں گر قبولیت کی سند
تمام عمر مری زیست باسپاس رہے
ہیں جن کے ٹکڑوں کے محتاج حاتم دوراں
انھیں کی ذات پہ قائم ہماری آس رہے
سنبھل سنبھل کے چلے ریگزار طیبہ میں
ہماری فکر کا آہو ادب شناس رہے
دعاہے خالق کل سے کہ،ارتحال کے بعد
حرم کی خاک سے میرا بدن مماس رہے
خوشی کے نور سے پرنور ہو مری ہستی
جہان غم کے اندھیروں سے بے ہراس، رہے
مرے بدن کا ہمیشہ اے خالق عالم
قباے اسوۂ سرکار ہی لباس رہے
غلام آل محمد ہے واصف بسمل
جبینِ عمرِ رواں پریہ اقتباس رہے
رشحات قلم
واصف رضا واصف مدھوبنی بہار