کھلتا ہے بابِ عشرتِ میخانۂ رسول
امکاں بکف ہے جرعۂ مستانۂ رسول
اٹھتا ہے شورِ قلقلِ میناے اِنشراح
چلتا ہے دَورِ گردشِ پیمانۂ رسول
مشقِ خرامِ ناز کو ہے صحنِ لامکاں
اللہ رے یہ رفعتِ کاشانۂ رسول
احساں ہیں وہ کہ تا بہ ابد انتہائے خلق
ممکن نہیں ادا کرے شکرانۂ رسول
دنیا و حشر میں اُسے حق نے بھلا دیا
جو شخص بھی ہوا کہیں بیگانۂ رسول
سجدے کو پیشِ غارِ حرا ہیں ہزار طُور
حیرت سراے کن ہے جَلوخانۂ رسول
احوالِ دو جہان ہیں اِس میں عیاں ، کہ ہے
جامِ جہاں نما دلِ دیوانۂ رسول
پلکوں سے راکھ اِس کی اٹھاتے ہیں نور زاد
کیا ہو بیانِ عزتِ پروانۂ رسول
اک جاں ہے وہ بھی اُن کی ہے خیرات کی ہوئی
مولیٰ کروں تو کیا کروں نذرانۂ رسول
یارب سنوار دے مریِ زلفِ حیات کو
دے دے مجھے تو صدقۂ دندانۂ رسول
رازیٓ خبر نہیں مجھے تیرے جہان کی
میں ہوں مکینِ حجرۂ ہجرانۂ رسول
(کھلتا ہے بابِ عشرتِ میخانۂ رسول)
(امکاں بکف ہے جرعۂ مستانۂ رسول)