خوشبوئے طیبہ جو سینے میں بسائی ہوتی

خوشبوئے طیبہ جو سینے میں بسائی ہوتی
پھر نہ دنیا کی کوئی بو کبھی بھائی ہوتی

ہوتا گر حضرت فاروق سا کوئی حاکم
ہیں جو گستاخ نبی سب کی صفائی ہوتی

جرم دھل جاتے ترے شہر مدینہ جاکر
آنکھ جو اشک ندامت سے نہائی ہوتی

ہوتیں کافور تری غم کی گھٹائیں ساری
پیارے آقا کو اگر بات بتائی ہوتی

گر نہ کہتا تو نبی پاک کو اپنے جیسا
نجدیا قبر میں کیوں تیری دھلائی ہوتی

ہوتے رسوا نہ زمانے میں کبھی بھی مومن
زندگی اپنی جو سنت میں بتائی ہوتی

ہم بھی سرکار کے فیضان سے ہوتے حاکم
خواب غفلت کی یہ چادر جو ہٹائی ہوتی

ہم بھی ہو سکتے تھے منصور زمانہ شاید
عشق کی آگ اگر دل میں لگائی ہوتی

نعت سرکار بھی پھر جھوم کے پڑھتا اکرم
محفل عشق کسی نے جو سجائی ہوتی

از۔محمد اکرم علی قادری ,باگی،جالون

 

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

جواب دیں